Dedicated to the memory of Aisha Yasmeen, a revered member of our community, esteemed mentor, and a foundational figure at the Center of Educational Research and Development (CERD). Throughout her tenure, Ms. Yasmeen exhibited unwavering dedication to curriculum development, skillfully integrating Divine Revelation with contemporary educational principles.
In 2004, she joined Green Crescent Trust and pioneered the inception of the ‘Educators Development Program.’ This specialized initiative has since evolved into an integral component of the training regimen at CERD. A testament to her visionary leadership, Ms. Yasmeen’s impact continues to resonate, shaping the educational landscape for years to come.
Although she may no longer be physically present among us, the echoes of her teachings and tireless efforts endure as an indelible legacy. Within the pages of this book, we share accounts from those privileged to collaborate closely with Ms. Yasmeen, capturing the essence of her piety, nurturing demeanor, and the profound influence she had on all fortunate enough to benefit from her wisdom.
کچھ شخصیات اسم با مسمی ہوتی ہیں شعوری یا لاشعوری طور پر ان کا نام شخصیت کا عکاس ہوتا ہے اس وقت جو کتاب میرے سامنے ہے یہ ایسی ہی خاتون کی یے جن کے والدین نے ان کا نام جس شخصیت پر رکھاوہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک اس کی پیروی کی کوشش میں رہیں انتہائی قابل رشک شخصیت سیدہ عائشہ صدیقہ اور ان کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک امتی جو اپنی زندگی میں ہر طرح کی آزمائشوں کے دور سے گزریں لیکن جب اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئیں تو ہر آنکھ اشک بار اور ہر زبان پر ان کی خیرخواہی اور باعمل ہونے کی گواہی تھی
میری زندگی کا بہت سا وقت اوپر والے کے فضل سے کتب بینی میں گزرا ہے سفرنامے اور آپ بیتیاں پڑھنا مجھے بہت مرغوب ہے جب کسی کے انتقال کے بعد اس کی یاد میں کتاب لکھی گئی اور میرے مطالعے میں آئی تو اس کتاب میں( خواہ وہ کسی بھی شخصیت پر لکھی گئی ہو) تکرار پائی گئی یہ وہ واحد کتاب ہے کہ ان کی یاد میں لکھنے والے سو سے زائد ہیں لیکن کتاب میں تکرار نہیں ہے اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی ہر ملنے والی نے ان کی شخصیت میں الگ چیز پائی
کتاب بہت عمدہ کاغذ پر اور موٹے فونٹ میں مرتب کی گئی ہے لکھنے والوں نے عائشہ مرحومہ سے اپنے اپنے تعلق کی بناء پر جو دیکھا اور جو سیکھا وہ سادہ اور فطری انداز میں بیان کیا
کتاب فہرست کے مطابق نو ابواب میں منقسم ہے جن کے عنوان بہت خوبصورت ہیں
پہلے باب کا عنوان ،،و القیت علیک محبۃ منی،،ہے جس میں ان سے وابستہ لوگوں نے بہت اچھے انداز میں گواہیاں دی ہیں افشاں نوید ،عطیہ نثار ،ثمینہ سعید،قدسیہ ملک فرحت طاہر سمیت تینتیس لوگوں نے تاثراتی مضامین لکھے ہیں ان کی خوبی اختصار اور دلچسپ انداز بیان ہے ،ہر قلمکار نے ان کی شخصیت کے کسی نہ کسی منفرد پہلو کی گواہی دی ہے نگران شعبہ تعلیم زینب آصف نے ان میں جو دیکھا وہ پڑھئیے
٫٫ آخری دم تک وہ مجھے یہی سکھاتی رہیں کہ اپنے الفاظ ،انداز ،اور لہجے کو خوب تولو
ممتاز مصنفہ فرحت طاہر پچیس سال ان سے تعلق میں تھیں لکھتی ہیں
٫٫ میری نظر میں عائشہ کی ڈھیروں خوبیوں میں نمایاں خوبی اعلی ظرفی کی صفت تھی ،
ادارہ کی مینیجر نگہت فاطمہ کے خیال میں عائشہ سے مل کر ڈیپریشن دور ہوجاتا تھا بلکہ مسائل کا رخ ہی بدل جاتا تھا ،
نبیلہ زبیری نے عائشہ یاسمین کو ہمیشہ اس مقولے کی عملی تصویر بنے دیکھا
٫٫ جو علم کو زندگی بخشتا ہے اسے کبھی موت نہیں آتی،،
جے آئی یوتھ کی نائب نگران نائلہ شاہد تربیت گاہ کے دوران کمر کی شدید تکلیف میں مبتلا ہوئیں ،اس درد کا چہرے سے اندازہ لگا کر عائشہ انھیں دوا ملتی رہیں اور دم کرتی رہیں ،
ملتان سے مراد فاطمہ نے عائشہ یاسمین اور ان کی سب سے گہری دوست نائلہ اقتدار کی دوستی کے متعلق تبصرہ کیا کی دونوں ایک دوسرے کے اشارے تک یوں سمجھتی تھیں گویا انہوں نے اس کی ریہرسل کی ہو
قرآن انسٹی ٹیوٹ کی راحیلہ بقائی کہتی ہیں میں نے اللہ کے لیے جینے اور اللہ کے لیے مرنے کا مفہوم ان کی زندگی سے سمجھا
قارئین پوری کتاب ان کے بارے میں بہترین گواہی یے صدقہ خیرات کی بابت حمیرہ کنول کو یوں عائشہ مرحومہ نے قائل کیا
٫٫ اللہ ہماری تنخواہ میں پتہ نہیں کس کس کا حصہ ڈال کر ہمیں دیتا ہےاور یہ ہم نہیں دیتے بلکہ اللہ ہم سے دلواتا ہے،،
نمرہ مریم کے بقول ٫٫ عائشہ باجی کی راہنمائی میں ہم نے یہ سیکھا کہ کیسے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے
،قارئین بشر ہونے کے ناطے کوئی بھی سراپا نیک نہیں ہوتا لیکن کامیاب وہ ہے جس کی نیکیوں کا پلڑا اس کی برائیوں پر غالب رہے بسا اوقات ہم چاہنے کے باوجود بہت سے بھلائی کے کام نہیں کرتے یہ کتاب ہمیں ہر دوسرے صفحے پر اس عائشہ کی جھلک دکھاتی ہے جو بلڈ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو کر بھی تحریک سے جڑی رہیں اپنے شعبے کی ذمہ داریوں میں یوں مصروف رہیں جیسے گاڑی نے وسل دے دیا ہو اور گارڈ جھنڈا لہرانے والا ہو ،ایک گوشت پوست کی بنی عورت جسے شادی کے بعد بالکل متضاد ماحول ملا ہو ،شوہر نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو قدرت نے اولاد کی شکل میں مدیحہ اور عبدالرحمان نامی دو بچے دئے ہوں وہ بیٹا جب جوان ہوجائے اسماعیل والے آداب فرزندی بھی موجود ہوں وہ ایم کیو ایم کی گولیوں سے شہید ہوجائے تواس ماں کے غم اور دکھ سے کیا جزبات ہوں گے؟
کتاب کے اکثر مضامین میں ان کے مثالی صبر کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ انسان تو انسان عرش پر فرشتے بھی دم بخود ہوں گے
کتاب کے دوسرے باب ٫٫ تو ہے فاتح عالم خوب و زشت،، میں ان کی بیٹی مدیحہ عبدالرشید ،ان کی دوست نائلہ اقتدار کے انٹرویوز ہیں جو صوبیہ نقی نے عمدگی سے لئے ہیں
بلاشبہ سب سے معتبر گواہی بہت قریب رہنے والوں کی ہوسکتی ہے
لکھنے میں مختصر سا فقرہ ہے لیکن زندگیاں اس کی تفسیر میں خرچ ہوجاتی ہیں مدیحہ لکھتی ہیں ،امی کی زندگی سے میں نے رخصت اور عزیمت کا فرق سیکھا بلڈ کینسر کے علاج کے دوران وہ اپنے مشن سے جڑی رہیں آخری دن بھی لوگوں کو میسج کئے ہاسپٹل میں یہ انتظام تھا کہ بچوں کے لیے ایل سی ڈی پر کارٹون وغیرہ چلتے رہتے تھے امی نے ڈاکٹر سے بات کر کے شعبہ اطفال کے کارٹون وہاں چلوائے،،
دوست کی حیثیت سے نائلہ اقتدار نے بھی سونے کے پانی سے تاثرات بیان کئے ہر کام میں مددگار دوست ،صلاحیتوں کے بہترین استعمال سے کس طرح لوگوں کو اپنے قریب کیا اپنے کام۔میں شامل کیا کیسے سب میں اخلاص پیدا کیا مختلف موضوعات پر ورکشاپس کا انعقاد ان کی تیاری افراد کو مدعو کرنا یہ سب دونوں کا اگلی دائمی زندگی کے لئے بہترین سرمایہ ہے
نائلہ اقتدار نے ان کے شب وروز کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ قاری اپنے آپ کو وہاں موجود سمجھتا ہے لکھتی ہیں جب وہ شہادت کی انگلی سے اشارہ کرکے دیکھو بی بی کا لفظ بولتی تھیں تو ہم سمجھ جاتے تھے کہ اب غلط بات کہنے والے کی شامت آئی کتاب کے تیسرے باب کا عنوان شجر طیبہ ہے جو دراصل عائشہ یاسمین کے عزیزواقارب کی تحریروں پر مشتمل ہے ان کے میکہ اور ننھیال دودھیال سے سب چھوٹے بڑوں نے ان کی یاد میں آنسو پروئے ہیں ان کی بھاوج ثوبیہ عبدالسلام کہتی ہیں بیماری کی شدت میں بخار سے کپکپارہی ہوتی تھیں لیکن منہ سے اللہ کا شکر ادا کرتیں
عائشہ کے داماد سید عبدالرشید ممبر سندھ صوبائی اسمبلی نے لکھا کہ مجھے پہلا تحفہ بحیثیت داماد ،ساس کی طرف سے دیا گیا جو کہ سیرت کی کتاب الرحیق المختوم پر مشتمل تھا اس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مجھے کیسا دیکھنا چاہتی ہیں
اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم سید علی عزام جو عائشہ کے بھانجے ہیں لکھتے ہیں
اسلام آباد کی تاریخ میں جمعیت کا کام نئے سرے سے منظم کرنے میں بہت سے نام لئے جائیں گے لیکن مالی استحکام کے لیے نمایاں نام عائشہ خالہ کا ہی ہوگا
اس باب میں ان کے بھائی بہنیں بھانجیاں سب ان کی یاد میں تعریفی انداز میں ان کی یاد تازہ کرتے پائے جاتے ہیں جبکہ کتاب کے چوتھے باب مینارہ نور میں بھی ساری تحریریں بہت اچھی ہیں معراج الہدیٰ صدیقی ہوں یا فصیح اللہ حسینی سب نے ان کی شخصیت کو مثالی قرار دیا کتاب کے پانچویں باب جوانوں کو سوز جگر دے ،میں نوجوان طبقے کے تاثراتی پیغام سموئے گئے ہیں
ہر پیغام اپنے اندر بہت سے اسرارورموز رکھتا ہے عائشہ کی وقت کی پابندی ان کی مہمان نوازی ان کے دل کی وسعت وغیرہ
حفصہ اشرف پرنسپل جامعہ المحصنات لکھتی ہیں شعبہ اطفال کے سولہ سالہ ساتھ نے ہمارے درمیان ماں بیٹی کا خوبصورت اور مضبوط تعلق پیدا کیا لیکن یہی شفقتوں بھرا رشتہ اس وقت بالکل اجنبی اور بیگانہ ہوجاتا جب سہہ ماہی رپورٹ ان تک پہنچتی اور فوری فون آتا ،،یونٹس کی تعداد کلاسز کی تعداد سے مطابقت نہیں رکھتی شرکاء کی حاضری کلاسز کی تعداد سے مطابقت نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ
کتاب کا چھٹا باب گل ہائے عقیدت پر مشتمل ہے جس میں مختصر مضامین ہیں
ایک جملہ کہتیں لیکن جہاں معنی آباد لئے ہوتا منیبہ کہتی ہیں 2011ء میں میری شادی ہوئی تو مدیحہ کے ساتھ شادی میں شامل ہوئیں ان کے دئے تحفے آج بھی میرے کچن کا اہم حصہ ہیں ہمیشہ ایک بات کہتی تھیں ،،بیٹا دعا کیا کرو اللہ تم لوگوں کو قدردان لوگوں سے ملوائے،،
انہیں اپنی بیٹی مدیحہ کی سہیلیاں بھی اپنی بیٹی کی طرح عزیز تھیں اس کی سہیلی صالحہ شیروانی لکھتی ہیں ٫٫۔ انہوں نے مجھے بہت محبت دی فرسٹ ائیر میں تھی کہ مجھے بخار ہوگیا سمجھانے لگیں کہ اللہ کو کمزور مومن سے طاقتور مومن زیادہ پسند ہے ،
کتاب کے ساتویں باب ،،صبح دوام زندگی ،میں عائشہ کی سادہ مگر مؤثر تحریریں کتاب میں خوبصورت اضافہ ہیں جبکہ کتاب کا آٹھواں باب ،،عشق از مومن است ، میں نظمیہ تاثرات ہیں اور کتاب کے آخری باب ،ساربان۔کاروان ،میں حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی قیادت کے تاثرات ہیں اس حصے میں ثمینہ سعید ،نائلہ اقتدار ، راحیل قاضی ،ڈاکٹر رخسانہ جبین ،قئیمہ پاکستان دردانہ صدیقی سمیت آٹھ لوگوں کی تحریریں ہیں جو کہ اس خوبصورت کردار اور للہیت کے چلتے پھرتے نمونے عائشہ یاسمین کو خراج عقیدت ہے
بہت خوش قسمت ہیں وہ جن کے لیے قیادت بھی اسی طرح غمزدہ ہے جیسے عام کارکن ،بیٹھک سکول ہو یا شعبہ اطفال ،ینگ مسلم ہو یا CERD سب ان کے جزبہ سے زندگی کے مفہوم سے آشنا ہوئے رب کے قریب ہوئے میں مبارک باد دیتی ہوں نائلہ اقتدار کو جنہوں نے دوستی کا حق ادا کیا اور ان کی یادوں کو تا دیر لفظوں کے صندوق میں محفوظ کردیا جو ہمیشہ کے لیے صدقہ جاریہ رہے گا ان شاءاللہ
قانتہ رابعہ گوجرہ
یہ کتاب اتنی جلدی اور اتنی ڈھیر ساری گواہیوں سمیت لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچا دینا ایک بہت بڑا کام تھاجسکے لیئے اللہ نے آپ کو چنا-اللہ رب العلمین اسے عائشہ بہن سمیت آپ سب کے لیئے صدقہ جاریہ بناے -کتاب خوبصورت اور دیدہ زیب ہے -تحریک اسلامی کی کارکنان کے لیئے بہترین نمونہ عمل -پڑھ کر عائشہ بہن پر تو رشک آیا ہی آیا ،اپنے لیئے بھی دعا کی کہ اللہ ہمارے لیئے بھی کسی نائلہ اور نادیہ کا بندوبست کر دے-ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان –
ایک دفعہ پھر قبولیت کی دعاوں کے ساتھ
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی
کتاب کے بارے میں تاثرات
جزاکم اللہ خیرا کثیرا….. بہت اچھی لگی.. ماشاءاللہ اپ لوگوں نے بہت زبردست محنت کی… مختلف ابواب کی تقسیم بھی زبردست ہے
ربیعہ طارق
ناظمہ صوبہ وسطی پنجاب
کتاب لے لی ہے اور پڑھ بھی رہی ہوں گویا کتاب سرہانے ہے اور وقتاً فوقتاً اس کو اٹھا کر جذب کرنے کی کوشش کرتی ہوں اور لگتا ہے عائشہ قریب ہی ہے
اپنے آخری دور میں اس نے مجھے کس قدر اپنی قربت کی کوشش کی ..
فرحت طاہر